سلطان عبدالعزیزآل سعود اور شریف حسین مکہ کے درمیان جنگ


 شریف مکہ شریف حسین حجاز کی بادشاہت کے بعد خلیفتہ المسلیمین بننے کا خواب ، اتحادی قوتوں کی فتح خلیفتہ المسلیمین کی شکست

خلافت المسلمین کے خاتمے اتحادی قوتوں کی فتح ترکوں کی شکست کے بعد  اب مکہ کے شریف حسین

 اپنی شان و شوکت کے فریب میں از خود ہی مبتلا ہوگیا تھا اس کو اس بات کا یقین ہو چکا تھا کہ اب جزیرۃ العرب میں اس کے سوا کوئی طاقتور نہیں ہے وہ نجد سمیت جزیرہ نمائے عرب کی تمام ریاستوں پر اپنی حکمرانی کے  دعوے کرنے لگا اگر چہ کہ کوئی عرب یہ بات نہین جانتا تھا کہ اس کو یہ اختیار کس نے اور کیسے دیا ہے مگر اس کے باوجود شریف حسین نے بڑے ہی شاہانہ لہجہ میں اب سعود سمیت عرب کے کئی حکمرانوں کو خطوط لکھے کہ اس نے ایک عرب مملکت بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ جس کا سربراہ وہ خود ہوگا اس نے دوسروں سے کہا کہ وہ اسے اپنا فرماں روا تسلیم کرلیں ۔ ان حالات میں سلطان عبدالعزیز بن عبدالرحمان ابن سعود نے انتہائ ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائِ شائیستگی سے واضح کردیا کہ نجد خود مختار ہے لحاظہ وہ شریف کے التماس کی تعمیل نہیں کرسکتے ۔پھر بھی شاہ نے یقین دلایا کہ نجد اور حجاز بقائے باہمی کے اصول پر پر پر امن طریقے سے دوستوں اور پڑوسیوں کی مانند رہیں گے کہا جاتا ہے کہ اس ذومعنی خط کے ملتے ہی شریف حسین غصے سے آپے سے باہر ہو گیا ۔۔۔۔۔
نجد جہاں سلطان عبدالعزیز بن عبدالرحمان کی حکمرانی قائم ہوتی جارہی تھی حجاز جہاں پہلے شریف حسین ترکی کے گورنر کی حیثیت سے حکمران تھا بغاوت میں کامیابی کے بعد شریف حسین حجاز کے بعد تمام عرب اور پھر اس کے بعد تمام  عالم اسلام کا خلیفہ بننے کی تیاریا ں کررہا تھا سلطان عبدالعزیز بن عبدالرحمان کے اس طرح کے جواب پر بے انتہا تیش میں آنے کے بعد شریف حسین  نے اپنے دوسرے بیٹے عبداللہ جو اردن کے موجودہ بادشاہ عبداللہ کے دادا امیر عبداللہ کو لارنس آف عرب کی زیر قیادت لڑنے والی فوج میں سے تیس ہزار کی ایک فوج ترتیب دی یہ فوج لارنس آف عربیہ کی زیر قیادت ترکی کے خلاف کئی برس تک لڑتی رہی تھی اس فوج کو امیر عبداللہ کی زیر قیادت سونپ کر حجاز اور نجد کے سرحدی قصبے خرمہ جو نجد میں شامل تھا پر قبضہ کرنے کے لیئے بھیجا یہ تیس ہزار کی فوج اس وقت کے ہر طرح کے جدید ترین اسلحہ سے مسلح تھِی جبکہ اس کی تربیت لارنس آف عربیہ اور برطانوی افسروں نے کی تھی  ع اس فوج کے ساتھ امیر عبداللہ نے حجاز کے سرحدی قصبے تربہ کے باہر پڑاو ڈالا یہاں اس نے اپنی تیس ہزار پر مشتمل افواج کے لیئے برطانیہ سے  مزیداسلح منگوانا شروع کیا جبکہ مزید فوج کو بھی جمع کرنا شروع کردیا یہاں بیٹھ کر امیر عبداللہ نے اپنے سرداروں کے ساتھ ریاض اور دیگر علاقوں پر قبضہ جمانے اور ان کا انتظام سنبھالنے کی منصوبہ بندی شروع کردی 
شریف مکہ کی اس کارگزاری اور امیر عبداللہ کی تیس ہزار پر مشتمل فوج کا نجد کی سرحدوں پر اس طرح آموجود ہونابجائے خود اپنی جگہ باعث تشویش تھا ۔
نجد کی نئی و نوزائیدہ ریاست کے لیئے یہ بہت ہی مشکل کام تھا کہ لارنس اف عربیہ کی تربیت یافتہ فوج کے ساتھ اس طرح مقابلہ ہو سکے مگراب ان کے سامنے اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ تھا ہی نہیں کہ اس مسلط کردہ جنگ کے خلاف امن کے زریعے نمٹا جائے یہاں تو دشمن اپنی فوج لے کر آگیا تھا  اور سرحد پر بیٹھا ہوا للکار رہا تھا   قوت ایمانی اور اللہ پر یقین کے ساتھ سلطان عبدالعزیز بن عبدالرحمان اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس جنگ کے مقابلے میں تیاری کرنے لگے۔۔۔
اسی دوران سلطان عبدالعزیز بن عبدالرحمان سے ان کے ایک مہمان خالد بن لوی نے ملاقات کی خالد بن لوی شریف مکہ -کے ایک رشتے دار قبیلے کا سردار تھا پہلے یہ شریف کی فوج کا اہم سردار بھی تھا  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے 

No comments:

Post a Comment