خلافت المسلیمن کا خاتمہ


خلافت المسلیمن کا خاتمہ 



عثمانی سلطنت کے آخری سلطان محمد ششم کی آمد، 1922ء
جنگ عظیم کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ میں 
تقسیم کا عمل قسطنطنیہ پر قبضہ کے 13 دن 
 ذریعے شروع ہوا۔ اور بعد ازاں معاہدہ سیورے کے 
ذریعے مشرق وسطٰی میں عثمانی مقبوضات کو 
برطانیہ اور فرانس کے حوالے کر دیا گیا جبکہ 
بحیرہ روم کے ساحلی علاقوں کو اٹلی، ترک ایجیئن
 ساحلوں کو یونان، اور آبنائے باسفورس اور 
بحیرہ مرمرہ کو بین الاقوامی علاقے کے طور پر اتحادی قوتوں کے حوالے کر
 دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مشرقی اناطولیہ میں جمہوریہ آرمینیا کو توسیع
دیتے ہوئے ولسونین آرمینیا کی تشکیل دی گئی جو آرمینیائی باشندوں کا قدیم 
وطن تھا تاہم بعد ازاں ان علاقوں میں ترک اور کرد بھی بس گئے۔ برطانیہ نے 
مشرق وسطٰی کی تقسیم کے لیے انتہائی چالاکی و عیاری کے ساتھ فرانس کے 
ساتھ سائیکوس-پیکوٹ نامی خفیہ معاہدہ کیا۔ استنبول اور ازمیر پر قبضہ ترک 
قومی تحریک کے قیام کا سبب بنی اور مصطفٰی کمال پاشا کی زیر قیادت جنگ 
آزادی کے آغاز اور جمہوریہ ترکی کے قیام کے اعلان کیا گیا۔ مصطفٰی کمال کی
 زیر قیادت ترک قومی تحریک نے 23 اپریل 1920ء کو انقرہ میں "قومی مجلس
 اعلٰی" (ترک زبان: بیوک ملت مجلسی) کے قیام کا اعلان کیا، جس نے 
استنبول میں عثمانی حکومت اور ترکی میں بیرونی قبضے کو تسلیم کرنے سے 
انکار کر دیا۔ ترک انقلابیوں نے عوامی فوج کے ذریعے یونان، اٹلی اور فرانس 
کی افواج کو اناطولیہ سے نکال باہر کیا۔
خلافت العثمانیہ کی حدود
معاہدہ سیورے کے نتیجے میں جو علاقے جمہوریہ آرمینیا کو مل گئے تھے انہیں بھی دوبارہ حاصل کیا اور آبنائے پر قابض برطانوی افواج کے لیے خطرہ بن گئی۔ بالآخر ترک انقلابیوں نے آبنائے اور استنبول پر قبضہ کر لیا اور یکم نومبر 1922ء کو سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ آخری سلطان محمد ششم وحید الدین (1861ء تا 1926ء17 نومبر 1922ء کو ملک چھوڑ گئے اور معاہدہ لوزان کے تحت 24 جولائی 1923ء کو باضابطہ طور پر ترک جمہوریہ کو تسلیم کر لیا گیا۔ چند ماہ بعد3 مارچ 1924ء کو خلافت کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا اور سلطان اور ان کے اہل خانہ کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر جلاوطن کر دیا گیا۔ 50 سال بعد 1974ء میں ترک قومی مجلس اعلٰی نے سابق شاہی خاندان کو ترک شہریت عطا کرتے ہوئے وطن واپسی کی اجازت دے دی۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے نتیجے میں جو نئے ممالک قائم ہوئے ان کی تعداد اِس وقت (بشمول متنازع شمالی ترک جمہوریہ قبرص) 40 بنتی ہے۔

No comments:

Post a Comment